کھلے دلوں سے ملے فاصلہ بھی رکھتے رہے
تمام عمر عجب لوگ مجھ سے الجھے رہے
حنوط تِتلیاں شو کیس میں نظر آئیں
شریر بچے گھروں میں بھی سہمے سہمے رہے
اب آئینہ بھی مزاجوں کی بات کرتا ہے
بکھر گئے ہیں وہ چہرے جو عکس بنتے رہے
میں آنے والے دنوں کی زبان جانتا تھا
اسی لیے مِری غزلوں میں پھول کھلتے رہے
درخت کٹ گیا لیکن وہ رابطے ناصر
تمام رات پرندے زمیں پہ بیٹھے رہے
حسن ناصر
بہت خوب
ReplyDeleteاردو میں مکمّل بلاگنگ سیکھے اور آن لائن پیسے کمائیں