Friday, 22 January 2021

وہ جو فرقت سے ڈر گئے ہوں گے

 وہ جو فرقت سے ڈر گئے ہوں گے

جیتے جی وہ تو مر گئے ہوں گے

یاد تیری ہی جن کا زیور تھی

گہنے اُن کے اُتر گئے ہوں گے

روبرو بات جب ہوئی ہو گی

لفظ کتنے مُکر گئے ہوں گے

تم نے اپنا جنہیں کہا ہو گا

وہ خوشی سے نکھر گئے ہوں گے

وہ جو بھٹکے تھے دل کی وادی میں

وہ بھلا کس نگر گئے ہوں گے

درد سہنا ہی شرطِ الفت ہے

جھوٹے عاشق تو ڈر گئے ہوں گے

کاسۂ عشق ہو گا ہاتھوں میں

اور وہ در بدر گئے ہوں گے

تم کو محفل میں دیکھ کر تنہا

سب کے دل ٹھہر گئے ہوں گے


رمل اقبال

No comments:

Post a Comment