وہ جو فرقت سے ڈر گئے ہوں گے
جیتے جی وہ تو مر گئے ہوں گے
یاد تیری ہی جن کا زیور تھی
گہنے اُن کے اُتر گئے ہوں گے
روبرو بات جب ہوئی ہو گی
لفظ کتنے مُکر گئے ہوں گے
تم نے اپنا جنہیں کہا ہو گا
وہ خوشی سے نکھر گئے ہوں گے
وہ جو بھٹکے تھے دل کی وادی میں
وہ بھلا کس نگر گئے ہوں گے
درد سہنا ہی شرطِ الفت ہے
جھوٹے عاشق تو ڈر گئے ہوں گے
کاسۂ عشق ہو گا ہاتھوں میں
اور وہ در بدر گئے ہوں گے
تم کو محفل میں دیکھ کر تنہا
سب کے دل ٹھہر گئے ہوں گے
رمل اقبال
No comments:
Post a Comment