میں جتنی دیر تِری یاد میں اداس رہا
بس اتنی دیر مِرا دل بھی میرے پاس رہا
عجب سی آگ تھی جلتا رہا بدن سارا
تمام عمر وہ ہونٹوں پہ بن کے پیاس رہا
مجھے یہ خوف تھا وہ کچھ سوال کر دے گا
میں دیکھ کر بھی اسے اس سے ناشناس رہا
تمام رات عجب انتشار میں گزری
تصورات میں دہشت رہی، ہراس رہا
گلے لگا کے سمندر حسین کشتی کو
سکوتِ تیرہ فضائی میں بدحواس رہا
بشیر میں اسے کس طرح بیوفا کہہ دوں
نگاہ بن کے جو اس دل کے آس پاس رہا
بشیر فاروقی
No comments:
Post a Comment