Saturday, 23 January 2021

یہاں تو ہر کوئی تعبیر کا بھکاری ہے

 یہاں تو ہر کوئی تعبیر کا بھکاری ہے

اور اپنی جیب میں خوابوں کی ریزگاری ہے 

کسی کی آنکھ نے چاہت کے پھول بھیجے ہیں 

کسی کے سر پہ غریبی کا بوجھ طاری ہے 

تِری منڈیر سے بچھڑے ہوئے زمانہ ہُوا

مِرے سفید کبوتر🕊 پہ وقت بھاری ہے

سلگتی پیاس نے سیراب کر دئیے صحرا

کہیں سبیل کہیں سلسبیل جاری ہے 

چراغِ شاعرِ شیریں زبان ہے فائق 

یہ روشنی کا تبسم، غزل نگاری ہے


فائق ترابی

No comments:

Post a Comment