یہاں تو ہر کوئی تعبیر کا بھکاری ہے
اور اپنی جیب میں خوابوں کی ریزگاری ہے
کسی کی آنکھ نے چاہت کے پھول بھیجے ہیں
کسی کے سر پہ غریبی کا بوجھ طاری ہے
تِری منڈیر سے بچھڑے ہوئے زمانہ ہُوا
مِرے سفید کبوتر🕊 پہ وقت بھاری ہے
سلگتی پیاس نے سیراب کر دئیے صحرا
کہیں سبیل کہیں سلسبیل جاری ہے
چراغِ شاعرِ شیریں زبان ہے فائق
یہ روشنی کا تبسم، غزل نگاری ہے
فائق ترابی
No comments:
Post a Comment