نفرت کے بعد عشق کا دعویٰ کئے بغیر
اک شخص مر گیا ہے ازالہ کئے بغیر
لب پر ہنسی نہیں ہے سو لازم ہے بھوک یار
جوکر کو کون پوچھے؟ تماشہ کئے بغیر
عزت کی بات تھی سو وہ چپ چاپ مر گئی
گاؤں کے ٹھاکروں کا خلاصہ کئے بغیر
اک طائفہ نے دیکھ کے بچوں کو یہ کہا
مرنے لگے تھے بھوکے یہ دھندا کیے بغیر
کامل یقین ہے کہ ہوں ہنستے ہوئے جدا
دو عشق کرنے والے بھی وعدہ کئے بغیر
دیکھو خدا صفات یہاں کون آ گیا
جو دے رہا ہے عشق تقاضا کئے بغیر
گاؤں کا ایک بوڑھا یہ کہہ کر کے رو دیا
کوئی تو بیٹی بیاہ لو خرچہ کئے بغیر
اب دیکھو زویا بخت یہ کیا کیا کھلائے گل
وہ آ گیا ہے ملنے بہانہ کئے بغیر
زویا شیخ
No comments:
Post a Comment