Saturday 23 January 2021

ترس کسی کو تو آیا اسے بجھاتے ہوئے

 ترس کسی کو تو آیا اسے بجھاتے ہوئے

دِیا جو تھکنے لگا روشنی لٹاتے ہوئے

اس ایک آنکھ پہ کتنے حسین مرتے تھے

جو آنکھ ٹوٹی تِرے خواب کو بچاتے ہوئے

تمہارے جانے کا صدمہ پڑا ہے اس دل کو

دھڑکنا چھوڑ بھی دیتا ہے غم مناتے ہوئے

کوئی تو بات مصور کو یاد آ گئی ہے

جو ہنس رہا ہے وہ تصویر کو بناتے ہوئے

مجھے یہ ڈر ہے کسی دن کسی مکان کے پاس

فقیر مارا نہ جائے صدا لگاتے ہوئے

کچھ ایسے شعر بھی ہوتے ہیں کیفیت والے

میں رو پڑوں گا کسی دن غزل سناتے ہوئے

میں تھک گیا ہوں مِری سانس رک گئی کاتب

یہ آنکھ خشک ہوئی تیرا دُکھ بہاتے ہوئے


سجاد کاتب

No comments:

Post a Comment