کچھ نہ ہونے کی سہولت کا مزہ لیتے ہیں
لوگ بازار میں غربت کا مزہ لیتے ہیں
بِکنے والوں کی ہنسی صاف بتاتی ہے مجھے
یہ خریدار کی وقعت کا مزہ لیتے ہیں
ہجر نے راکھ نہیں پھول بنایا ہے مجھے
لوگ خوشبو سے محبت کا مزہ لیتے ہیں
بھول جاؤں میں کوئی چیز بتاتے ہی نہیں
دوست سارے مِری عجلت کا مزہ لیتے ہیں
یہ جو دیوار پہ تصویر بنے بیٹھے ہیں
دیکھنے والے کی حسرت کا مزہ لیتے ہیں
میرے اک دوست کی ملتی ہے شباہت تجھ سے
اس سے مل کے تِری صحبت کا مزہ لیتے ہیں
جیب میں رکھتے ہیں تصویر کسی لڑکی کی
گھر کو چلتے ہیں قیامت کا مزہ لیتے ہیں
تشنہ لب بیٹھے ہیں دریا کے کنارے ارشد
ہم یہاں پیاس کی وحشت کا مزہ لیتے ہیں
ارشد مرزا
No comments:
Post a Comment