کیسے بھولیں گی بھلا گزری ہوئی رات کا دکھ
فاحشاؤں کو ہے جسموں پہ نشانات کا دکھ
مطمئن ہوں تِرے جانے سے بظاہر، لیکن
کھا رہا ہے مجھے اندر سے اسی بات کا دکھ
ہم ہیں دنیا میں نہ فردوس میں ہوں گے اک ساتھ
اِس طرف طبقے ہیں اُس سمت ہے درجات کا دکھ
ایک تو وہ ہے جو آتا ہے مِرے حصے میں
باقی اس گھر میں اترتا ہے مضافات کا دکھ
دور کی سوچنے والوں میں بہت بیٹھا ہوں
ان کی صحبت میں ملا ہے مجھے خدشات کا دکھ
تیری آنکھوں سے سوا برسی ہیں آنکھیں میری
تیرے دکھ سے کہیں بڑھ کر ہے مِری ذات کا دکھ
ایک وہ شخص محبت سے اگر دیکھے شاہ
بھول جاؤں میں زمانے کی ہر اک بات کا دکھ
شاہزیب عکس
No comments:
Post a Comment