پریوں کی جگہ رات کی رانی میں تہجد
سی سکتے تھے کل عمر پرانی میں تہجد
انکار میں وہ حسن کہ دیوان نچھاور
انگ انگ میں اور جان فشانی میں تہجد
اک اڑتا ہوا جائے نماز اور نوافل
اک ساحرہ اور زائچہ دانی میں تہجد
تم دُور بہت دُور اذانوں کی گلی میں
تم پاس بہت پاس، نشانی میں تہجد
بالوں سے بچھے فرش پہ دجلہ ہے نہ بدلہ
ہم دشت میں اور مرثیہ خوانی میں تہجد
باتوں سے تہ سنگ محبت کا جزیرہ
غصے سے لہو رنگ کہانی میں تہجد
یوں جیسے غزل دھل کے سماوات سے اترے
لفظوں میں عشاء اور معانی میں تہجد
رخسار پتا کر کے کسی روز بتائیں
آتش ہے کہ جاڑے کی جوانی میں تہجد
مُلا کو پتا ہے نہ کسی نظم کو عامر
کچھ اور ہے آشفتہ بیانی میں تہجد
عامر سہیل
No comments:
Post a Comment