Saturday 23 January 2021

یقیں کی کوکھ میں کچا گمان رکھتے ہوئے

 یقیں کی کوکھ میں کچا گمان رکھتے ہوئے

تڑپ اٹھے تھے محبت کا مان رکھتے ہوئے

ہمارا حال نہ پوچھو تو یار بہتر ہے

کہ مر گئے ہیں کسی کی زبان رکھتے ہوئے

خدا سوائے سبھی فانی ہیں سمجھ آیا

لحد کی نوک پہ شہرت کی جان رکھتے ہوئے

اس ایک شخص نے اک بار بھی نہیں سوچا

مِرے بدن پہ غموں کا مچان رکھتے ہوئے

میں ایک شیشہ بدن ہوں، نہ ٹوٹ جاؤں کہیں

مجھے تو خود سے الگ کر دھیان رکھتے ہوئے

سمجھ سکو گی اذیت کیا ان کی تم زویا

پرند اڑ نہ سکیں جو اڑان رکھتے ہوئے


زویا شیخ

No comments:

Post a Comment