یقیں کی کوکھ میں کچا گمان رکھتے ہوئے
تڑپ اٹھے تھے محبت کا مان رکھتے ہوئے
ہمارا حال نہ پوچھو تو یار بہتر ہے
کہ مر گئے ہیں کسی کی زبان رکھتے ہوئے
خدا سوائے سبھی فانی ہیں سمجھ آیا
لحد کی نوک پہ شہرت کی جان رکھتے ہوئے
اس ایک شخص نے اک بار بھی نہیں سوچا
مِرے بدن پہ غموں کا مچان رکھتے ہوئے
میں ایک شیشہ بدن ہوں، نہ ٹوٹ جاؤں کہیں
مجھے تو خود سے الگ کر دھیان رکھتے ہوئے
سمجھ سکو گی اذیت کیا ان کی تم زویا
پرند اڑ نہ سکیں جو اڑان رکھتے ہوئے
زویا شیخ
No comments:
Post a Comment