Saturday 23 January 2021

پڑتا تھا اس خیال کا سایہ یہیں کہیں

 پڑتا تھا اس خیال کا سایا یہیں کہیں

بہتا تھا میرے خواب کا دریا یہیں کہیں

جانے کہاں ہے آج مگر پچھلی دھوپ میں

دیکھا تھا ایک ابر کا ٹکڑا یہیں کہیں

دیکھو یہیں پہ ہوں گی تمنا کی کرچیاں

ٹوٹا تھا اعتبار کا شیشہ یہیں کہیں

کنکر اٹھا کے دیکھ رہا ہوں کہ ایک دن

رکھا تھا میں نے دل کا نگینہ یہیں کہیں

اک روز بے خیالی میں برباد ہو گئی

آباد تھی خیال کی دنیا یہیں کہیں


انعام ندیم

No comments:

Post a Comment