ہر موسم میں خالی پن کی مجبوری ہو جاؤ گے
اتنا اس کو یاد کیا تو پتھر بھی ہو جاؤ گے
ہنستے بھی ہو روتے بھی ہو آج تلک تو ایسا ہے
جب یہ موسم ساتھ نہ دیں گے تصویری ہو جاؤ گے
ہر آنے جانے والے سے گھر کا رستہ پوچھتے ہو
خود کو دھوکا دیتے دیتے بے گھر بھی ہو جاؤ گے
جینا مرنا کیا ہوتا ہے؟ ہم تو اس دن پوچھیں گے
جس دن مٹی کے ہاتھوں کی تم مہندی ہو جاؤ گے
چھوٹی چھوٹی باتوں کو بھی اتنا سجا کر لکھتے ہو
ایسے ہی تحریر رہی تو بازاری ہو جاؤ گے
رؤف رضا
No comments:
Post a Comment