اپنے وعدوں سے اسی وقت مکرنے والی
شکل دیکھی ہے کبھی حد سے گزرنے والی
وہ مِری قوم سے ہے اور میں یہ جانتا ہوں
وہ کبھی پیار کی ہامی نہیں بھرنے والی
میری خاطر تو زمانے سے بھی ٹکرا جائے
ایک لڑکی ہے جو حشرات سے ڈرنے والی
میں نے اک حوض بنایا ہے مکانِ دل میں
جل پری چاہیے اک اس میں اترنے والی
پھر سے پانی میں لگی آگ دکھا دے مجھ کو
بھیج تصویر ذرا پھر وہی جھرنے والی
اس کو پانے کے جتن سارے کروں گا لیکن
بے وقوفی نہ کروں گا کبھی مرنے والی
جب سے اشعار تِرے میں نے پڑھے ہیں ثروت
ریل کھینچے مجھے گاؤں سے گزرنے والی
اس کے پھینکے ہوئے پتھر بھی کنارے پہنچیں
میری پھینکی نہیں لکڑی بھی ابھرنے والی
بات منوانے کا یوں آیا طریقہ آسی
دل نے ترکیب سجھائی ہمیں دھرنے والی
قمر آسی
No comments:
Post a Comment