اداس شام کا منظر دکھائی دیتا ہے
ہر ایک تار بدن کا دُہائی دیتا ہے
خزاں کی جب بھی کوئی تازہ فصل اٹھتی ہے
مزارعہ مجھے آدھی بٹائی دیتا ہے
عجیب بات ہے نقدِ متاعِ جاں کے عوض
وہ شخص مجھ کو عقیدت پرائی دیتا ہے
میں اپنے آپ میں چھوٹا دکھائی دیتا ہوں
جب آئینہ مِرا میری صفائی دیتا ہے
عجیب پیکرِِ معصومیت ہے جانے کیوں
وہ میرے ہاتھ میں اپنی کلائی دیتا ہے
خدا بھی کیسا سخی ہے کہ اپنے بندے کو
جو بندگی کے عوض میں خدائی دیتا ہے
بہت سخی ہے سنا ہے، تو دیکھئے عابد
وہ حبسِ جاں سے ہمیں کب رہائی دیتا ہے
عابد جعفری
No comments:
Post a Comment