Friday, 1 January 2021

آندھیوں کا خواب ادھورا رہ گیا

 آندھیوں کا خواب ادھورا رہ گیا

ہاتھ میں اک سوکھا پتا رہ گیا

شہر تو ثابت ہوا شہر خیال

آنکھ میں بس اک دھندلکا رہ گیا

آ گئے بارش کے دن دیوار پر

اک ذرا سا رنگ کچا رہ گیا

کھلکھلا کر دھوپ پیچھے ہٹ گئی

ہوتے ہوتے اک تماشا رہ گیا

راستے اک دوسرے میں کھو گئے

ہاتھ میں سڑکوں کا نقشا رہ گیا

اچھے اچھے سب کھلونے بک گئے

شام کا سنسان میلا رہ گیا

محفلوں کی بھی فضا معلوم ہے

کیا ہوا جو میں اکیلا رہ گیا


فاروق شفق

No comments:

Post a Comment