گزر رہی ہے مِری عمر دھوپ چھاؤں کے ساتھ
ہے تیرا شہر بھی آباد میرے گاؤں کے ساتھ
یہ دکھ تو اپنے جلو میں رہے ہیں شام و سحر
ہے اپنا واسطہ مدت سے اِبتلاؤں کے ساتھ
اسی نے شہر میں فتنے بپا کیے اکثر
نجیب خُو میں جو پھرتا ہے پارساؤں کے ساتھ
ہم احتیاط سے رہتے ہیں مہ جبینوں میں
یہ لوٹ لیتے ہیں ہم کو مگر اداؤں کے ساتھ
ہمیں غرور ہے ہم شہرِ دشمنِ جاں میں
نبھا رہے ہیں محبت سے بیوفاؤں کے ساتھ
مبادا اپنا سفینہ بھی ڈوب جائے کہیں
الجھ پڑے ہیں تلاطم میں ناخداؤں کے ساتھ
اب اتفاق سے محفل میں آ گئے ہیں تو پھر
تمام رات گزاریں گے دلرباؤں کے ساتھ
ہمیں یہ دکھ ہے محبت کے راستوں میں اسد
بگاڑ بیٹھے ہیں ہم اپنے آشناؤں کے ساتھ
اسد اعوان
No comments:
Post a Comment