ہاتھ پھیلاؤ تو سورج بھی سیاہی دے گا
کون اس دور میں سچوں کی گواہی دے گا
سوزِ احساس بہت ہے اسے کم تر مت جان
یہی شعلہ تجھے بالیدہ نگاہی دے گا
یوں تو ہر شخص یہ کہتا ہے کھرا سونا ہوں
کون کس روپ میں ہے وقت بتا ہی دے گا
ہوں پُر امید کہ سب آستیں رکھتے ہیں یہاں
کوئی خنجر تو مِری پیاس بجھا ہی دے گا
شب گزیدہ کو تِرے اس کی خبر ہی کب تھی
دن جو آئے گا غم لا متناہی دے گا
آئینہ صاف دل اتنا بھی نہیں اب کہ تمہیں
اصل چہرے کے خط و خال دِکھا ہی دے گا
تیرے ہاتھوں کا قلم ہے جو عصائے درویش
یہی اک دن تجھے خورشید کلاہی دے
فضا ابن فیضی
No comments:
Post a Comment