Wednesday 30 December 2020

ہاتھ پھیلاؤ تو سورج بھی سیاہی دے گا

 ہاتھ پھیلاؤ تو سورج بھی سیاہی دے گا

کون اس دور میں سچوں کی گواہی دے گا

سوزِ احساس بہت ہے اسے کم تر مت جان

یہی شعلہ تجھے بالیدہ نگاہی دے گا

یوں تو ہر شخص یہ کہتا ہے کھرا سونا ہوں

کون کس روپ میں ہے وقت بتا ہی دے گا

ہوں پُر امید کہ سب آستیں رکھتے ہیں یہاں

کوئی خنجر تو مِری پیاس بجھا ہی دے گا

شب گزیدہ کو تِرے اس کی خبر ہی کب تھی

دن جو آئے گا غم لا متناہی دے گا

آئینہ صاف دل اتنا بھی نہیں اب کہ تمہیں

اصل چہرے کے خط و خال دِکھا ہی دے گا

تیرے ہاتھوں کا قلم ہے جو عصائے درویش

یہی اک دن تجھے خورشید کلاہی دے


فضا ابن فیضی

No comments:

Post a Comment