Friday 25 December 2020

جب خیالوں میں تمہیں پاس بٹھاؤں اکثر

 جب خیالوں میں تمہیں پاس بٹھاؤں اکثر

میر کے شعر ہوں لب پر، انہیں گاؤں اکثر

دفن کر کے سبھی وعدوں کو جہاں بچھڑے تھے

وہ شجر دیکھنے جاتی ہوں میں گاؤں اکثر

میں گِلہ کیسے کروں تم نے مجھے روندا ہے

اپنے سائے پہ آ جاتا ہے پاؤں اکثر

جب تِرے بعد تِرا ہجر ستائے مجھ کو  

تجھ کو میں یاد کروں، بھول بھی جاؤں اکثر

کیسا رِشتہ ہے مِرا تم سے مجھے علم نہیں 

تم اگر روٹھو تو میں خود کو مناؤں اکثر

میرا دعویٰ ہے تجھے چھوڑ دیا ہے میں نے

پھر تِرا ذکر ہی کیوں شعروں میں لاؤں اکثر

عافیہ آئینہ دیکھا ہی نہیں مدت سے

خود سے میں بعد تِرے آنکھ چراؤں اکثر


اقراء عافیہ

No comments:

Post a Comment