Wednesday 30 December 2020

کسی کے عشق سے لبریز ہو رہا ہوں ابھی

 کسی کے عشق سے لبریز ہو رہا ہوں ابھی

کسی کے ہجر میں آنکھیں بھگو رہا ہوں ابھی

بہت سے نقص مصور نے دور کرنے ہیں

تجھے پتا ہے میں تخلیق ہو رہا ہوں ابھی

وہی جگہ کہ جہاں نقشِ پائے جاناں تھے

اسی کی خاک سے آنکھوں کو دھو رہا ہوں ابھی

لگے گی عمر شجر کو شجر بنانے میں

مگر میں بیج محبت کا بو رہا ہوں ابھی

کسی نے قرض اٹھایا تھا میرے آباء میں

اسی کے بوجھ سے مقروض ہو رہا ہوں ابھی

بہت سے خواب ادھورے ہیں میری آنکھوں میں

پرانے سال کے خوابوں میں سو رہا ہوں ابھی


اکرام افضل

No comments:

Post a Comment