کسی کے عشق سے لبریز ہو رہا ہوں ابھی
کسی کے ہجر میں آنکھیں بھگو رہا ہوں ابھی
بہت سے نقص مصور نے دور کرنے ہیں
تجھے پتا ہے میں تخلیق ہو رہا ہوں ابھی
وہی جگہ کہ جہاں نقشِ پائے جاناں تھے
اسی کی خاک سے آنکھوں کو دھو رہا ہوں ابھی
لگے گی عمر شجر کو شجر بنانے میں
مگر میں بیج محبت کا بو رہا ہوں ابھی
کسی نے قرض اٹھایا تھا میرے آباء میں
اسی کے بوجھ سے مقروض ہو رہا ہوں ابھی
بہت سے خواب ادھورے ہیں میری آنکھوں میں
پرانے سال کے خوابوں میں سو رہا ہوں ابھی
اکرام افضل
No comments:
Post a Comment