Thursday, 31 December 2020

دار پر حد سے سوا یاد آئی

دار پر حد سے سوا یاد آئی

اس بشر کو تو وفا یاد آئی

گل کی خوشبو تھی جہاں پر ناپید

اس گلی باد ِ صبا یاد آئی

بجھ گئی شب کو اگر خواہشِ دل

چارہ گر تجھ کو دوا یاد آئی

چلتے چلتے جو جلاتے گئے دِیپ

ظلمتِ شب کی ادا یاد آئی

جیتے جیتے رہے عنبر مدہوش

مرنے والے کو قضا یاد آئی


نادیہ عنبر لودھی

No comments:

Post a Comment