خوش نما پیڑوں کے بیچوں بیچ گھر جاتا ہوا
ایک رستہ سانپ کی صورت میں بل کھاتا ہوا
ایک لڑکی مال کے اوصاف گنواتی ہوئی
ایک لڑکا آگہی کی رمز سمجھاتا ہوا
سب کساں پانی کو لے کر لڑ رہے ہیں اور خدا
سب کسانوں کی زمیں پر ابر برساتا ہوا
ایک مچھلی جھیل کے پانی پہ لہراتی ہوئی
اک مچھیرا مستری سے جال بنواتا ہوا
ایک رقصندہ خودی میں جسم تھرکاتی ہوئی
ایک وڈیرا ہوش کھو کر رال ٹپکاتا ہوا
اک مسافر پر سفر میں مشکلیں آتی ہوئیں
ایک پورا صحن کے گوشے میں مُرجھاتا ہوا
نابلد ہوں از تغزل در غزل با ایں ہمہ
میر کے آگے نہیں لگتا میں ہکلاتا ہوا
ظہور منہاس
No comments:
Post a Comment