Saturday, 26 December 2020

تھکن سے چور ہوئے اور سفر کی نذر ہوئے

 تھکن سے چور ہوئے اور سفر کی نذر ہوئے

ہم ایک قافلۂ بے خبر کی نذر ہوئے

کوئی نہیں تھا مگر مانتے رہے کوئی ہے

یہ لوگ ڈرتے رہے اور ڈر کی نذر ہوئے

عجیب قافلہ تھا، رک نہیں رہا تھا کہیں

مسافروں کے مسافر سفر کی نذر ہوئے

کسی کے ہاتھ میں جب ٹہنیاں نہیں آئیں

تب اس کے ہاتھ کے پتھر شجر کی نذر ہوئے

ہوائیں چلنے لگیں، اور قبائیں کھلنے لگیں

کئی چھپے ہوئے منظر نظر کی نذر ہوئے


احسن سلیمان

No comments:

Post a Comment