تھکن سے چور ہوئے اور سفر کی نذر ہوئے
ہم ایک قافلۂ بے خبر کی نذر ہوئے
کوئی نہیں تھا مگر مانتے رہے کوئی ہے
یہ لوگ ڈرتے رہے اور ڈر کی نذر ہوئے
عجیب قافلہ تھا، رک نہیں رہا تھا کہیں
مسافروں کے مسافر سفر کی نذر ہوئے
کسی کے ہاتھ میں جب ٹہنیاں نہیں آئیں
تب اس کے ہاتھ کے پتھر شجر کی نذر ہوئے
ہوائیں چلنے لگیں، اور قبائیں کھلنے لگیں
کئی چھپے ہوئے منظر نظر کی نذر ہوئے
احسن سلیمان
No comments:
Post a Comment