یاد آ جاتا ہے عاشور کی اس رات کا دُکھ
مجھ سے دیکھا نہیں جاتا کسی سادات کا دکھ
آپ کی بیٹی نہیں، آپ نہیں سمجھیں گے
خالی جاتی ہوئی واپس کسی بارات کا دکھ
جب کوئی دکھ نہیں موجود تو کیسی خوشیاں
یعنی ہم سے کہیں بڑھ کے ہے سماوات کا دکھ
تم مجھے چھوڑ گئے تھے وہ تمہیں چھوڑ گیا
اسے کہتے ہیں مِری جان مکافات کا دکھ
لذتِ ہجر کے ثمرات نہ گِنوا مجھ کو
میں نے جھیلا ہوا ہے یار ملاقات کا دکھ
مجھ سے چھینی ہے مہک بھیگی ہوئی مٹی کی
پکے آنگن نے دیا ہے مجھے برسات کا دکھ
آپ ٹہنی سے فقط نوچ کے کھا لیتے ہیں
آپ پوچھیں نا کبھی پیڑ سے ثمرات کا دکھ
میری اطراف میں پھیلے ہوئے یہ جھوٹے لوگ
میری اطراف میں پھلا ہوا سقراط کا دکھ
یہ بہت دیر سے گھر رات پلٹتے لڑکے
کاش سمجھیں یہ کبھی ماؤں کے خدشات کا دکھ
اپنے اپنے ہیں فراوانی کے بھی دکھ ساگر
تھر کا دکھ اور ہے اور ہے مِری گلیات کا دکھ
مسعود ساگر
No comments:
Post a Comment