Thursday 31 December 2020

اس بار بھی کسی سے دسمبر نہیں رکا

 اس بار بھی کسی سے دسمبر نہیں رکا


لمبے سفر کی اوٹ میں پَل بھر نہیں رکا

میں وقت کے فریب میں آ کر نہیں رکا

پھر آ گیا ہے ایک نیا سال دوستو

اس بار بھی کسی سے دسمبر نہیں رکا

لے کر کسی نے ہاتھ میں کشکول وقت

ایسا سفر کِیا کے کہیں پر نہیں رکا

منظر کے عکس میں کوئی چھیڑا چٹخ گیا

شیشے کے پاس آ کے جو پتھر نہیں رکا

چلتا رہا عدو کی صفیں روندتا ہوا

لاکھوں کا خون جگر کر کے بھی لشکر نہیں رکا

بس یہ ہوا کے آخری لمحہ بھی آ گیا

دل کا طواف کوچۂ دلبر نہیں رکا


فواد حبیب شاہ

No comments:

Post a Comment