Sunday, 27 December 2020

خوف کی آخری منزل سے بنا کر رکھیے

خوف کی آخری منزل سے بنا کر رکھیے

اس کا مطلب ہے کہ قاتل سے بنا کر رکھیے

باہمی ربط میں ہوتی نہیں گنجائشِ ترک

آپ دریا ہیں تو ساحل سے بنا کر رکھیے

عقل کہتی ہے محبت سے نہ رکھو نسبت

دل یہ کہتا ہے مسائل سے بنا کر رکھیے

قیدیٔ زُلف کی قسمت میں کہاں آزادی؟

جائیے؛ طوقِ سلاسل سے بنا کر رکھیے

اب دُعاؤں کی ضرورت ہے تو یاد آئی زکوٰۃ

میں نہ کہتا تھا کہ سائل سے بنا کر رکھیے


لکی فاروقی حسرت

No comments:

Post a Comment