خوف کی آخری منزل سے بنا کر رکھیے
اس کا مطلب ہے کہ قاتل سے بنا کر رکھیے
باہمی ربط میں ہوتی نہیں گنجائشِ ترک
آپ دریا ہیں تو ساحل سے بنا کر رکھیے
عقل کہتی ہے محبت سے نہ رکھو نسبت
دل یہ کہتا ہے مسائل سے بنا کر رکھیے
قیدیٔ زُلف کی قسمت میں کہاں آزادی؟
جائیے؛ طوقِ سلاسل سے بنا کر رکھیے
اب دُعاؤں کی ضرورت ہے تو یاد آئی زکوٰۃ
میں نہ کہتا تھا کہ سائل سے بنا کر رکھیے
لکی فاروقی حسرت
No comments:
Post a Comment