Sunday 27 December 2020

وہ شہر دوست بھی رخصت ہوا

شہر دوست


 وہ شہر دوست بھی

رخصت ہوا کہ جس نے سدا

ہمارے دل میں کھِلائے تھے چاہتوں کے گلاب

خمار باقی ہے اب تک ہماری آنکھوں میں

حسین لمحوں کا جو اس کے دم سے روشن تھے

تمہارے بعد بھی آئیں گے یوں تو سب موسم

بہت ستائیں گے لیکن ہر ایک موقعہ پر

جو ہوتے تم تو

یہ کام اس طرح کرتے

کریں گے یاد تمہیں ہم کئی حوالوں سے

عجیب شخص تھا

کڑوی کسیلی سن کر بھی

نہ تیز بولا کسی سے

نہ وہ ہوا ناراض

سجائے رہتا تھا ہونٹوں پہ چاہتوں کے گلاب

بچھڑ رہے ہو تو وعدہ کرو مرے ہمدم

کبھی جو گزرو ادھر سے تو بھول مت جانا

یہیں ملیں گے کسی مولسری کے پیڑ تلے

کریں گے باتیں شرنگار رس کے دوہوں کی

کریں گے باتیں بہاری کی نائیکاؤں کی

کریں گے باتیں کسی کے رسیلے ہونٹوں کی

مہکتی زلفوں کی کاجل کی اس کی بندیا کی

لچکتی شاخ سے جسموں کی

چاند چہروں کی

بچھڑ رہے ہو تو وعدہ کرو

کہ آؤ گے

کبھی جو گزرو ادھر سے تو بھول مت جانا

تمہارے ہجر کے موسم کی سبز چادر کو

میں اپنے تن پہ سجائے

یہیں ملوں گا تمہیں


فاروق بخشی

No comments:

Post a Comment