Saturday, 26 December 2020

دشت احساس سے خیمہ ذات تک دور تک رات تک

 چاک پر رکھی خاموشی


دشتِ احساس سے

خیمۂ ذات تک

دور تک، رات تک

اک سرابِ سفر

اور، فراتِ ہنر؟

تیرے سوکھے کنارے پڑی خاک پر

سارے کوزہ گروں کی بھٹکتی نظر

اپنے ہاتھوں کے پیالوں میں تقدیر کو

دیکھتی ہے، مگر کتنی خاموش ہے

دشتِ احساس سے

خیمہ ذات تک

کوئی جھونکا ہواؤں کا آیا اگر

کوئی لہجہ کما لوں کا آیا اگر

اپنے کوزہ گروں کو کریں گے خبر

سور ہو تم ابھی، جب تلک رات ہے

نخلِ امکان میں بھی

کہیں نہ کہیں (اور کبھی نہ کبھی)

کوئی سوغات ہے

ہونے والی کوئی

کام کی بات ہے


شبہ طراز

No comments:

Post a Comment