زندگی سے تھکی تھکی ہو کیا
تم بھی بے وجہ جی رہی ہو کیا
میں تو مرجھا گیا ہوں اب کے برس
تم کہیں اب بھی کھل رہی ہو کیا
تم کو چھوکر چمکنے لگتا ہوں
تم کوئی نور کی بنی ہو کیا
اس کی خوشبو نہیں ہے پہلے سی
شہر سے اپنے جا چکی ہو کیا
دیکھ کر تم کو کھلنے لگتے ہیں
تم گلوں سے بھی بولتی ہو کیا
آج یہ شام بھیگتی کیوں ہے
تم کہیں چھپ کے رو رہی ہو کیا
سوچتا ہوں تو سوچتا یہ ہوں
تم مجھے اب بھی سوچتی ہو کیا
ضیا ضمیر
No comments:
Post a Comment