Monday 28 December 2020

زندگی سے تھکی تھکی ہو کیا

 زندگی سے تھکی تھکی ہو کیا

تم بھی بے وجہ جی رہی ہو کیا

میں تو مرجھا گیا ہوں اب کے برس

تم کہیں اب بھی کھل رہی ہو کیا

تم کو چھوکر چمکنے لگتا ہوں

تم کوئی نور کی بنی ہو کیا

اس کی خوشبو نہیں ہے پہلے سی

شہر سے اپنے جا چکی ہو کیا

دیکھ کر تم کو کھلنے لگتے ہیں

تم گلوں سے بھی بولتی ہو کیا

آج یہ شام بھیگتی کیوں ہے

تم کہیں چھپ کے رو رہی ہو کیا

سوچتا ہوں تو سوچتا یہ ہوں

تم مجھے اب بھی سوچتی ہو کیا


ضیا ضمیر

No comments:

Post a Comment