Wednesday, 30 December 2020

دکھوں کے روپ بہت اور سکھوں کے خواب بہت

 دکھوں کے روپ بہت اور سکھوں کے خواب بہت

ترا کرم ہے بہت، پر مِرے عذاب بہت 

تُو کتنا دور بھی ہے کس قدر قریب بھی ہے 

بڑا ہے ہجر کا صحرائے پُر سراب بہت 

حقیقت شبِ ہجراں کے راز کھوئے گئے 

طویل دن ہیں بڑے راستے خراب بہت 

چلیں گے کتنا ترے غم کے ساتھ ساتھ قدم 

شکنجہ ہائے زمانہ ہیں بے حساب بہت 

اتر گیا ہے خمارِ شرابِ ذات کہیں 

ہوئے ہیں گردشِ دوراں سے فیضیاب بہت 


تنویر انجم

No comments:

Post a Comment