Saturday, 26 December 2020

حال مریض عشق ہے بیکار دیکھنا

 حالِ مریضِ عشق ہے بیکار دیکھنا

جائے گا جان لے کے یہ آزار دیکھنا

تابِ نگاہِ طالبِ دیدار دیکھنا

پردہ اٹھا تو ہو گیا دشوار دیکھنا

بن کر غبارِ سایۂ دیوار اٹھ گیا

یا  گر گئی وہ ریت کی دیوار دیکھنا

بادل ہیں سر پہ اور نہ سایا ہے اِس طرف

سورج بھی ہے کوئی پسِ دیوار دیکھنا

شامل ہوئے ہیں بزم میں مثلِ چراغ ہم

اب صبح تک جلیں گے لگاتار دیکھنا

بے شک اسیرِ گیسوئے جاناں ہیں بے شمار

ہے کوئی عشق میں بھی گرفتار دیکھنا

آنکھوں میں دم ہے، یا پئے اظہارِ آرزو

تارِ نظر میں اخگرِ گفتار دیکھنا


حنیف اخگر

No comments:

Post a Comment