یہ دکھ نہیں کہ شہر میں میرا کوئی نہیں
یہ دکھ کی بات ہے کہ کسی کا کوئی نہیں
اس کا بچھڑنا لے گیا حسِ مزاح تک
ہنسنے کی بات کرتا ہوں ہنستا کوئی نہیں
سب ظلم ہوتا دیکھنے والوں کی صف میں ہیں
افسوس، اس ہجوم میں اندھا کوئی نہیں
لگتا ہے وہ تو شہروں کا ہو کر ہی رہ گیا
حالانکہ جانتا تھا ہمارا کوئی نہیں
دن کیا ہوا کہ بھاگ پڑے دفتروں کی سمت
ضوریز سیر گاہوں میں ہوتا کوئی نہیں
اسامہ ضوریز
No comments:
Post a Comment