Sunday 27 December 2020

یہ دکھ نہیں کہ شہر میں میرا کوئی نہیں

 یہ دکھ نہیں کہ شہر میں میرا کوئی نہیں

یہ دکھ کی بات ہے کہ کسی کا کوئی نہیں

اس کا بچھڑنا لے گیا حسِ مزاح تک

ہنسنے کی بات کرتا ہوں ہنستا کوئی نہیں

سب ظلم ہوتا دیکھنے والوں کی صف میں ہیں

افسوس، اس ہجوم میں اندھا کوئی نہیں

لگتا ہے وہ تو شہروں کا ہو کر ہی رہ گیا

حالانکہ جانتا تھا ہمارا کوئی نہیں

دن کیا ہوا کہ بھاگ پڑے دفتروں کی سمت

ضوریز سیر گاہوں میں ہوتا کوئی نہیں


اسامہ ضوریز

No comments:

Post a Comment