الفت فریب تھی تِری چاہت فریب تھی
اور دل لگی سمیت محبت فریب تھی
اک تُو نہ تھا جسے کہ میسر تھے ہم سدا
یہ بات جھوٹ تھی یہ روایت فریب تھی
تُو نے تو میرے بعد نیا چُن لیا رفیق
قسموں، وفا، جفا و مروّت فریب تھی
مجبور ہم تھے اور فریبی تھے یار سب
ہم پر فریب کی وہ شکایت فریب تھی
شہہ دے، مجھے لڑا کے نکل بھاگنا تِرا
دشمن سے مِل کے میری حمایت فریب تھی
تشنہ رہے حسینؑ شہادت تلک عزیز
بہتی ہوئی فرات کی شِدت فریب تھی
ڈستے ہیں ٹولیوں میں محبت کے نام پر
تُو بھی فریب، تیری جماعت فریب تھی
عجیب ساجد
No comments:
Post a Comment