Wednesday 30 December 2020

اس نے اپنی محبت کا چرچا کیا اور میرے ارادوں کی نس کاٹ دی

 اس نے اپنی محبت کا چرچا کیا اور میرے ارادوں کی نس کاٹ دی

میں کہ قیدِ تعلق میں بیدار تھا، سو گیا اور تارِ قفس کاٹ دی

ایک دن عالمِ ہوت و ناسوت میں وہ ڈری اور سینے سے آ کے لگی

توڑ دی مورتی اور ڈر بھی گیا، ایک پَل میں صدائے جرس کاٹ دی

کچھ گزاری گئی کچھ خریدی گئی یعنی دونوں طرح سے ہی نقصان ہے

اب بھلا اس پہ کیا کوئی جھگڑا کرے کاٹنی تھی مجھے یار! بس کاٹ دی

وہ سمجھتی رہی اپنے گھر میں پڑی، زہر کھا کے مرا ہوں گا میں بے طرح

میں سمجھتا رہا اپنے گھر میں پڑا، اس نے اپنی کلائی کی نس کاٹ دی

رابطہ پل پہ باندھے ہوئے قفل سے ایک منت کی ڈوری الجھتی رہی

راستہ جو نہیں کٹ سکا کیا ہوا میں نے تیری طلب ہم نفس کاٹ دی

پارسائی کی وحشت کو مجھ سے بھلا کون بہتر سمجھتا ہے میرے خدا

میں جو تیری محبت میں کافر ہوا تو مصلے پہ ساری ہوس کاٹ دی

یوں بھی صحرائی راتوں کے رومان میں ہوک بھرتے ہوئے گیت سنتے ہوئے

میرے شہروں کی سڑکیں سلامت رہیں پھانکھتے جھاڑتے خار و خس کاٹ دی


ذوالقرنین حسنی

No comments:

Post a Comment