Wednesday 30 December 2020

لوٹ آئے اپنے گھر کی طرف جی کو مار کر

 لوٹ آئے اپنے گھر کی طرف جی کو مار کر

نکلے تھے ہم بھی نقشِ تمنا سنوار کر

منظر اک اک اجاڑ کے آیا ہوں اس طرف

اے جنگلوں کی زرد ہوا، مجھ سے پیار کر

آنکھوں میں لیکے بیٹھے ہیں اب دل کی خاکِ خشک

واپس ہوئے جو ابرِ گریزاں سے ہار کر

آوارگانِ شب سے کہو اس طرف نہ جائیں

بیٹھی ہے دھوپ راہ میں کپڑے اتار کر

جعفر سفر کے بعد تھکن سے مثالِ سنگ

بیٹھا ہوں اپنے سامنے پاؤں پسار کر


جعفر شیرازی

No comments:

Post a Comment