لوٹ آئے اپنے گھر کی طرف جی کو مار کر
نکلے تھے ہم بھی نقشِ تمنا سنوار کر
منظر اک اک اجاڑ کے آیا ہوں اس طرف
اے جنگلوں کی زرد ہوا، مجھ سے پیار کر
آنکھوں میں لیکے بیٹھے ہیں اب دل کی خاکِ خشک
واپس ہوئے جو ابرِ گریزاں سے ہار کر
آوارگانِ شب سے کہو اس طرف نہ جائیں
بیٹھی ہے دھوپ راہ میں کپڑے اتار کر
جعفر سفر کے بعد تھکن سے مثالِ سنگ
بیٹھا ہوں اپنے سامنے پاؤں پسار کر
جعفر شیرازی
No comments:
Post a Comment