وہ زندگی جو تِرے پیار میں بسر نہ ہوئی
تھی ایسی رات کہ جس کی کبھی سحر نہ ہوئی
انہی کی چاہ میں یہ حال ہو گیا میرا
مگر انہی کو مِرے حال کی خبر نہ ہوئی
سلگتی راہوں پہ سایہ تھا کس کی پلکوں کا
یہ کون کہتا ہے اس سمت وہ نظر نہ ہوئی
ہر ایک موڑ پہ دل نے تجھے تلاش کیا
کسی بھی لمحے تمنا یہ منتشر نہ ہوئی
خلش یہ پوچھتا پھرتا ہے آبشاروں سے
کہ کیوں یہ وادئ گل تیری رہگزر نہ ہوئی
خلش دہلوی
No comments:
Post a Comment