ہمارے چہرے پہ رنج و ملال ایسا تھا
مسرتوں کا زمانے میں کال ایسا تھا
فضائے شہر میں بارود کی تھی بو شامل
کہ سانس لینا بھی ہم کو محال ایسا تھا
امیرِ شہر کے ہونٹوں پہ پڑ گئے تالے
غریبِ شہر کا چبھتا سوال ایسا تھا
بہ وقت شام سمندر میں گر گیا سورج
تمام دن کی تھکن سے نڈھال ایسا تھا
تمام گھونسلے خالی تھے ننگے پیڑوں پر
حدودِ دشت میں وقتِ زوال ایسا تھا
وہ جب بھی ملتے ہیں زخموں کے پھول دیتے ہیں
ہمارا رابطہ ان سے بحال ایسا تھا
زمیں پہ جھکنے لگی خودبخود ہر اک ڈالی
درخت کربِ نمو سے نڈھال ایسا تھا
خود اپنے آپ سے بھی میں رہا ہوں بیگانہ
حصارِ دل میں کسی کا خیال ایسا تھا
اظہر نیر
No comments:
Post a Comment