زمانے کو الفت کا دستور کر دوں
میں تیری کہانی کو مشہور کر دوں
تِرے سامنے رو لوں جی چاہتا ہے
تِرے دل کو بھی غم سے میں چور کر دوں
مسیحا کا احساں نہیں چاہتی ہوں
میں زخموں کو اپنے ہی انگور کر دوں
مِرے عشق پر کوئی تہمت نہ دھرنا
اگر تم کہو خود کو منصور کر دوں
اگر مل سکے مجھ کو اشکوں کے بدلے
غم عشق سے خود کو معمور کر دوں
اگر آنکھ بھر کے وہ دیکھے مجھے تو
میں دل اس کی خدمت پہ مامور کر دوں
گِرا دوں میں نفرت کی دیواریں ساری
محبت کو دنیا کا منشور کر دوں
دلشاد نسیم
No comments:
Post a Comment