Thursday 31 December 2020

زمانے کو الفت کا دستور کر دوں

 زمانے کو الفت کا دستور کر دوں

میں تیری کہانی کو مشہور کر دوں

تِرے سامنے رو لوں جی چاہتا ہے

تِرے دل کو بھی غم سے میں چور کر دوں

مسیحا کا احساں نہیں چاہتی ہوں

میں زخموں کو اپنے ہی انگور کر دوں

مِرے عشق پر کوئی تہمت نہ دھرنا

اگر تم کہو خود کو منصور کر دوں

اگر مل سکے مجھ کو اشکوں کے بدلے

غم عشق سے خود کو معمور کر دوں

اگر آنکھ بھر کے وہ دیکھے مجھے تو

میں دل اس کی خدمت پہ مامور کر دوں

گِرا دوں میں نفرت کی دیواریں ساری

محبت کو دنیا کا منشور کر دوں


دلشاد نسیم

No comments:

Post a Comment