Thursday 31 December 2020

آبلہ پائی ہوئی نہ زیست میں حائل کبھی

 آبلہ پائی ہوئی نہ زیست میں حائل کبھی

پاؤں کب میرے تھکے گر ہو گئے گھائل کبھی

پر کشش ہے محفلِ دنیا بہت اپنی جگہ

پر مجھے یہ اپنی جانب کر سکی مائل کبھی

ہر عمل کا اجر ہے محفوظ اپنے رب کے پاس

کوئی بھی اچھا عمل جاتا نہیں زائل کبھی

چھا گئی مستی بدن میں اور دل پر اک سرور

ذہن میں جب بج اٹھی محبوب کی پائل کبھی

جھولیاں بھر دی گئیں رحمت سے رب کی دوستو

کب ہے خالی ہاتھ لوٹا کوئی بھی سائل کبھی

بات سچی ہے تو کہنے میں تکلف کیا تجھے

لوگ ہو ہی جائیں گے عاکف تِرے قائل کبھی


عاکف غنی

No comments:

Post a Comment