آبلہ پائی ہوئی نہ زیست میں حائل کبھی
پاؤں کب میرے تھکے گر ہو گئے گھائل کبھی
پر کشش ہے محفلِ دنیا بہت اپنی جگہ
پر مجھے یہ اپنی جانب کر سکی مائل کبھی
ہر عمل کا اجر ہے محفوظ اپنے رب کے پاس
کوئی بھی اچھا عمل جاتا نہیں زائل کبھی
چھا گئی مستی بدن میں اور دل پر اک سرور
ذہن میں جب بج اٹھی محبوب کی پائل کبھی
جھولیاں بھر دی گئیں رحمت سے رب کی دوستو
کب ہے خالی ہاتھ لوٹا کوئی بھی سائل کبھی
بات سچی ہے تو کہنے میں تکلف کیا تجھے
لوگ ہو ہی جائیں گے عاکف تِرے قائل کبھی
عاکف غنی
No comments:
Post a Comment