Sunday 27 December 2020

دریچے سو گئے شب جاگتی ہے

 دریچے سو گئے، شب جاگتی ہے

میرے کمرے میں کیسی خامشی ہے

جدھر دیکھو فسردہ زندگی ہے

مجھے لگتا ہے یہ غم کی صدی ہے

جو رستوں میں بھٹکتی پھر رہی ہے

اسے پہچان فکر زندگی ہے

ہر اک لمحہ ہمارا خون تازہ

محبت جونک بن کر چوستی ہے 

یہ سناٹا یہ تنہائی یہ کمرہ 

خیالوں میں چڑیل اب ناچتی ہے

میں نیر کیا دکھاؤں زخم دل کا

کسی کی آنکھ خود نم ہو گئی ہے


اظہر نیر

No comments:

Post a Comment