اپنی کُٹیا میں محبت کے خزانے بھر کے
پاؤں میں روند دئیے محل زمانے بھر کے
ایک بچہ جو کہانی سے ڈرا کرتا تھا
آج بستے میں لے آیا ہے فسانے بھر کے
یہ نشانی بھی اجازت ہے اٹھا لے جاؤ
طاق پر رکھے ہیں وہ پھول پرانے بھر کے
بانٹتے پھرتے ہیں تاریک مکانوں میں چراغ
ہم سخی لوگ، ولی لوگ، زمانے بھر کے
عمر دراز
No comments:
Post a Comment