Sunday 27 December 2020

خوف زدہ لمحوں کو جینا پڑتا ہے

 خوف زدہ لمحوں کو جینا پڑتا ہے

تنہا ڈر کی آگ میں جلنا پڑتا ہے

جی جاتے ہیں تجھ کو بھول کے لیکن پھر

ہم کو تیری یاد میں مرنا پڑتا ہے

زخمی پوریں چیخیں تو احساس ہوا

اُدھڑا جیون کیسے سینا پڑتا ہے

بوجھل جلتی آنکھ نے جو بھی خواب بُنے

پھر ان کی تعبیر سے لڑنا پڑتا ہے

کیسے اس کو سمجھاتی وہ کیا جانے

میرے اس کے بیچ زمانہ پڑتا ہے


ذکیہ غزل

No comments:

Post a Comment