خوف زدہ لمحوں کو جینا پڑتا ہے
تنہا ڈر کی آگ میں جلنا پڑتا ہے
جی جاتے ہیں تجھ کو بھول کے لیکن پھر
ہم کو تیری یاد میں مرنا پڑتا ہے
زخمی پوریں چیخیں تو احساس ہوا
اُدھڑا جیون کیسے سینا پڑتا ہے
بوجھل جلتی آنکھ نے جو بھی خواب بُنے
پھر ان کی تعبیر سے لڑنا پڑتا ہے
کیسے اس کو سمجھاتی وہ کیا جانے
میرے اس کے بیچ زمانہ پڑتا ہے
ذکیہ غزل
No comments:
Post a Comment