اپنے پیکر میں شعاعوں کو سمو لے کوئی
زیست آنچل نہیں رنگوں میں بھگو لے کوئی
جاگتی آنکھیں شبِ ہجر میں تھک جائیں گی
اوڑھ کر یاد گئے وقت کی سو لے کوئی
کہہ رہی ہے یہ گھنی گھاس پہ گرتی شبنم
غم نکھر آئیں گے کچھ دیر تو رو لے کوئی
خامشی میں ہی گزر جائے نہ جیون کا سفر
میری تنہائی کے سناٹے میں بولے کوئی
روشِ خواب سے خوشبو بھری کلیاں چن کر
چوم لے آنکھ سے پلکوں میں پرو لے کوئی
خاکِ تن میری، ہواؤں میں بکھر جائے سحر
میری پرواز کے پر اتنے تو کھولے کوئی
جب گھٹن بڑھنے لگے درد کی شدت سے سحر
ایک کاندھا ہو کہ سر رکھ کے تو رو لے کوئی
یاسمین سحر
No comments:
Post a Comment