Saturday 26 December 2020

میں باغی ہوں میں باغی ہوں

 میں باغی ہوں


اس دور کے رسم رواجوں سے

ان تختوں سے ان تاجوں سے

جو ظلم کی کوکھ سے جنتے ہیں

انسانی خون سے پلتے ہیں

جو نفرت کی بنیادیں ہیں

اور خونی کھیت کی کھادیں ہیں

میں باغی ہوں، میں باغی ہوں

جو چاہے مجھ پر ظلم کرو


وہ جن کے ہونٹ کی جنبش سے

وہ جن کی آنکھ کی لرزش سے

قانون بدلتے رہتے ہیں

اور مجرم پلتے رہتے ہیں

ان چوروں کے سرداروں سے

انصاف کے پہرے داروں سے

میں باغی ہوں، میں باغی ہوں

جو چاہے مجھ پر ظلم کرو


جو عورت کو نچواتے ہیں

بازار کی جنس بناتے ہیں

پھر اس کی عصمت کے غم میں

تحریکیں بھی چلواتے ہیں

ان ظالم اور بدکاروں سے

بازار کے ان معماروں سے

میں باغی ہوں، میں باغی ہوں

جو چاہے مجھ پر ظلم کرو


جو قوم کے غم میں روتے ہیں

اور قوم کی دولت ڈھوتے ہیں

وہ محلوں میں جو رہتے ہیں

اور بات غریب کی کہتے ہیں

ان دھوکے باز لٹیروں سے

سرداروں سے وڈیروں سے

میں باغی ہوں، میں باغی ہوں

جو چاہے مجھ پر ظلم کرو


مذہب کے جو بیوپاری ہیں

وہ سب سے بڑی بیماری ہیں

وہ جن کے سوا سب کافر ہیں

جو دین کا حرفِ آخر ہیں

ان جھوٹے اور مکاروں سے

مذہب کے ٹھیکے داروں سے

میں باغی ہوں، میں باغی ہوں

جو چاہے مجھ پر ظلم کرو


جہاں سانسوں پر تعزیریں ہیں

جہاں بگڑی ہوئی تقدیریں ہیں

ذاتوں کے گورکھ دھندے ہیں

جہاں نفرت کے یہ پھندے ہیں

سوچوں کی ایسی پستی سے

اس ظلم کی گندی بستی سے

میں باغی ہوں، میں باغی ہوں

جو چاہے مجھ پر ظلم کرو


میرے ہاتھ میں حق کا جھنڈا ہے

میرے سر پر ظلم کا پھندا ہے

میں مرنے سے کب ڈرتا ہوں

میں موت کی خاطر زندہ ہوں

میرے خون کا سورج چمکے گا

تو بچہ بچہ بولے گا

میں باغی ہوں، میں باغی ہوں

جو چاہے مجھ پر ظلم کرو


خالد جاوید جان​​

No comments:

Post a Comment