انجیر کے سفید رس سے لکھی گئی نظم
مجھے عورت کی کتنی ضرورت ہے
میں موت کو کہیں بہتر سمجھ اور دیکھ سکتا ہوں
میں جانتا ہوں کہ عورت کی لذت کیا ہے اور کتنے عرصے پر محیط ہے
مجھے معلوم ہے عورت جسم نہیں
مجھے عورت کے پہلو میں نہیں رہنا
مجھے چار پل کی لذت نہیں چاہیے
جو احسان بھی ہو
وبالِ جان بھی ہو
میں کسی انجیر کے درخت سے پرانے پھل چن کر پھر انہیں گنتے ہوئے زندگی گزار سکتا ہوں
میں احسان نہیں اٹھا سکتا
میں طوائف کو ترجیح دوں گا
میں اخروٹ چھیلنا پسند کروں گا
جس سے میرے ہاتھ کسی دلہن کی طرح یکبار رنگین لگیں گے
اور میں عین ممکن ہے خیالوں میں خود کو شہزادہ بنا لوں
میں کسی سانپ کے بل کے باہر بیٹھ کر اس کا انتطار کرنا پسند کروں گا
جو خوبصورت ہوتا تو ہے مگر لمس کے قابل نہیں
اس کا لمس خمیازہ ہے
میں لڑکی کو دیکھ کر سانپ کی کہانی یاد کروں گا جو مجھے پالنے میں سنائی تھی
میں چڑیوں کے تمام گیت یاد کروں گا جو مجھے میرے چوتھے سال چڑیوں نے انتظاماً سنائے تھے
میں اپنے گھر کے پاس وہ گھونسلہ یاد کروں گا
جس کے انڈوں سے بچوں تک کا مرحلہ میری آنکھوں میں محفوظ ہے
مجھے اس کا انجام یاد ہے
ہاں ایسے یاد ہے جیسے ٭ٹرائی اینگل مووی ایچ ڈی ریزولیوشن میں دیکھ رہا ہوں
کہ کیسے سانپ آ کر چڑیا کے بچے ہڑپ کر گیا اور وہ چیخ بھی نہ سکی
مجھے اس چڑیا کے حلق میں خشکی کا احساس ہو سکتا ہے
میں اس کے چھوٹے دل کی بے ترتیب دھڑکن محسوس کرسکتا ہے ہوں
میں اس چڑیا کی وہ رات محسوس کر سکتا ہوں جب بارش ہیوی ہونے لگی تھی
اس کو رات ہر آہٹ میں بچوں کی یاد نے کتنا ترسایا ہو گا
اس کی ہر ایک چیخ کس قدر گرجتے بادلوں میں دب گئی ہو گئی
میں قدرتی مناظر اور طائرانِ خوش نوا کے ساتھ رہ سکتا ہوں مجھے ان کی دنیا پسند ہے
جبکہ عورت سے ایکسیڈینٹل ملاقات بھی ہو چکی ہے ایک آخری اور پہلی ملاقات کا ایک مختصر دورانیہ
مجھے تمام گھونگے یاد ہیں جو ساون کے ساتھ ہمارے گھر آ جاتے تھے
اور دیواروں کو کسی دھواں چھوڑنے والے طیارے کے بنائے ہوئے آسمان کی طرح بنا دیتے تھے
میں سنیل کا وہ لُبریکنٹ اپنے ہاتھ پر محسوس کر سکتا ہوں
جو مجھے کھیلتے ہوئے ٹچ کر گیا تھا اور میں نیچر کی پہلے گیلے لمس سے واقف ہوا تھا
بچپن کی ایک ایک پرت کھل کر فیڈڈ یاد سے اوپری سطح پر آ رہی ہے
مجھے نیچر کے پاس رہنا ہے اور بناوٹی عورت نیچر کی تعریف میں نہیں آتی
٭Triangle
No comments:
Post a Comment