یہاں تو سب ہیں تمہارے یہ جان میں نے لیا
گزشتہ رات ہوا کا بیان میں نے لیا
مری فضاؤں کو امن و امان چاہیے تھا
اسی لیے تو پرندہ نشان میں نے لیا
مجھے تو اچھے برے کی تمیز تھی ہی نہیں
زمین چھوڑ دی، اور آسمان میں نے لیا
غزل کے منہ کا بدلنا تھا ذائقہ مجھ کو
ذرا سا شہر سے ہٹ کر مکان میں نے لیا
ترے بدن کی جو خوشبو ہے وہ کہیں بھی نہیں
یہاں کے سارے گلابوں کو چھان میں نے لیا
یہ لگ رہا ہے حسن میں بھی چاہتا یہی تھا
کہا بچھڑنے کا اس نے، تو مان میں نے لیا
حسن ظہیر راجا
No comments:
Post a Comment