Wednesday, 2 December 2020

پہلی پیاس اور پھر پہلا بوسہ کسے بھولتا ہے

 سنو


تم سے ملنے سے پہلے بہت سال پہلے

کہ جب آسماں پر اکیلا زمیں زاد تھا میں

مجھے ایک لڑکی ملی تھی

اسے میں نے اپنے ہی پہلو کو شق کر کے باہر نکالا تھا

اور اپنی پوروں پہ پالا تھا

اپنی ہی پلکوں کے سائے میں سپنوں بھری نیند دی

ایک دن

اس نے اپنی ستاروں سی آنکھیں

مری کتنے برسوں کی جاگی ہوئی سرخ آنکھوں میں ڈالیں، کہا؛

آج سے میں تمہارے لیے ہوں

مرے سارے سپنے، محبت، بدن، روح کی سلطنت

سب تمہارے لیے ہے

میں حیران تھا

گو مجھے اس پہ ایمان تھا

پھر بھی ڈرتا تھا

میں جو پہلے ہی دن سے خسارے میں رکھا ہوا ایک انسان تھا

اور تمہیں کیا بتاؤں کہ مجھ کو خسارہ ہوا

میں اکیلا ہوا

جس قدر وقت اب تیز چلتا ہے، ایسا نہ تھا

ابھی وقت کو ہم نے بازو پہ باندھا نہ تھا

نبص آزاد تھی

زمیں اپنے سینے کو ڈھانپے ہوئے تھی

اور انسان نے خون کا بیج بویا نہ تھا

اور سروں کی کوئی فصل کاٹی نہ تھی

سارے انسان اک ہاتھ کی انگلیوں پر گِنے تھے مِرے باپ نے

خیر، میں اور مِرا بھائی جب باپ کے قد کے ہونے لگے

تو مرے باپ نے نسل آگے بڑھانے کا سوچا

اور اس وقت یہ کائنات ایک لڑکی پہ تھی مشتمل

وہ لڑکی، وہ صبحِ ازل، دخترِ اولیں

دخترِ اولیں سارا دن کام کر کے ذرا شام کو اپنی پلکیں گراتی

تو خواب اس کی آنکھوں سے اڑتے، ہوا میں لپکتے

فلک پر چمکتے ستارے بنے

سحر اس کے گالوں سے آغاز ہوتی

وہ پلکیں اٹھاتی تو سورج نکلتا، ہوا جھومتی

روشنی اس کے لب چومتی

روشن دنوں میں

وہ جب میری آنکھوں کے آئینے میں اپنی توقیر تکتی تو ہنستی

وہ ہنستی تو جنگل چہکتا

ہوا اس کی آواز سر سے گزرتے ہوئے بادلوں کو سناتی

گھٹائیں امڈتیں تو بارش چھماچھم برستی

وہ ہنستی

ہم اک دوسرے کے لیے آئینہ

فطری معصومیت نے ہمیں حسن بخشا ہوا تھا

ہمیں عشق نے اپنی نظروں میں رکھا ہوا تھا

ایک دن دل کو دھڑکا لگا

غیر محفوظ ہونے کے احساس نے مجھ کو چونکا دیا

میرا کوئی بھی دشمن نہ تھا

ایک ڈر بولتا

دخترِ اولیں تجھ سے چھن جائے گی

ڈر بھی شاید محبت کی شاخوں سے ہی پھوٹتا ہے

ہمیشہ محبت کا خوں چوستا ہے

یہ ڈر ہی محبت کے ہونے کی سچی گواہی ہے شاید

ہم زمیں زاد جنگل کے قانون سے بے خبر

برائی بھی شاید لہو میں کہیں تھی

مگر ہم نے دیکھا نہیں تھا اسے

ایک دن وہ برائی جبلت سے نکلی، مجسم ہوئی

اور شیطان کے روپ میں سامنے آ گئی

اس نے مِرے بھائی کو موت کے لفظ سے آشنا کر دیا

اور مِرا بھائی اس دخترِ اولیں کے لیے

پہلا قاتل بنا

سن رہی ہو ناں؟ قاتل بنا

سو پہلے پہل اس زمیں نے جو انسان کا خوں پیا

وہ مِرا تھا

میں ہابیل تھا

تو مِرے خون کا ذائقہ یہ زمیں بھول سکتی ہے

ہرگز نہیں

پہلی پیاس اور پھر پہلا بوسہ کسے بھولتا ہے


واحد اعجاز میر

No comments:

Post a Comment