Saturday, 2 April 2022

جس دن قابیل نے اپنے ہاتھ ہابیل کے خون سے رنگے

 انسانیت


جس دن قابیل نے اپنے ہاتھ 

حضرت ہابیل کے خون سے رنگے 

اسی دن اولادِ آدم کے لہو میں

زہرِ بُغض و عداوت آمیزش ہوئی

گو کہ آدم نے جنم لے لیا تھا

لیکن انسانیت مر گئی

جس دن برادرانِ یوسف نے

اسے تنہا، کنویں میں پھینک ڈالا

اس دن سے خون کے اینٹوں سے تر

دیوارِ تفریق کھڑی کر دی گئی 

اور انسانیت مر گئی

اس دن سے ہی اس دنیا کے سارے

انسان اس بھٹی میں جلتے آ رہے ہیں

ہر طرف  آگ ہی آگ  لگی ہے

مرگِ آدم کو اک دور گزرا

لیکن آدم پھر نہ واپس آیا

بالکل نہیں

ہمارے دور میں 

ہر دن انسانیت مرتی ہے

کیونکہ دنیا حقیقت سے بے گانی ہے

آزادی و محبت سے یہ انجانی  ہے 

نامِ موسیٰؑ، عیسیٰؑ و محمدؐ لینا نادانی ہے

عصائے موسیٰؑ بھی تو قصۂ ماضی ہوا

ہر دن انسانیت مرتی ہے

مجھے دیکھو ذرا کہ

اک مرجھاتا پھول ہوں جیسے

کسی بیمار بچے کی نظر ہوں جیسے

پنجرے میں قید پرندہ ہوں جیسے

پابہِ زنجیر قاتل اندر سے اداس ہی ہوتا ہے

اشکِ نم لیے ظالم، دل میں چیخ دبائے ہے

ہر دن جو پیالے میں گندم بھروں تو

لگتا ہے کہ جیسے زہر انڈیلے جاتا ہوں

مجھے یہ یقین نہیں ہوتا 

کہ وہ مر چکا ہے

یہ کسی مرجھاتے پھول کی بات تو نہیں

وہ جنگل کے ساتھ مرجھا ہی جاتے ہیں

خون آلود ہاتھ لوگ پسِ دید چھپاتے ہیں

ایسی حیوانیت تو جانور بھی باہم نہیں رکھتے

جو یہ بزدل انسان ایک دوسرے سے کرتے ہیں

یہ کسی مرجھاتے پھول کی بات تو نہیں

مان لو کہ کوئی پرندہ پنجرے میں آج تک نہیں مَرا

مان لو کہ اس دنیا میں کوئی پھول آج تک نہیں کِھلا

مان لو کہ سرسبز جنگل بھی تھا ازل سے اک صحرا

ایک سوختہ و بیاباں صحرا

لوگوں کی خطاؤں کو صبر سے جھیلو کہ 

مردہ عشق و محبت کے ساتھ رہتے ہوئے

انسانیت کا کلامِ سخن اب موت ہی ہے


فریدون مشیری

اردو ترجمہ؛ نودان ناصر

No comments:

Post a Comment