اب یوں بھی نہیں آنکھ پہ الہام ہوا ہے
اک عمر میں وہ شخص مِرے نام ہوا ہے
یہ دولتِ رُسوائی کہاں مفت ملی ہے
سو زخم اٹھائے ہیں تو پھر نام ہوا ہے
اس ترکِ تعلق کا بہت خوف تھا دل کو
جس کام سے ڈرتا تھا وہی کام ہوا ہے
احباب تعارف میں یہی کہتے ہیں اکثر
یہ وہ ہے محبت میں جو ناکام ہوا ہے
اُس پار اکیلا تُو، میں اِس پار اکیلا
کیا خوب محبت کا یہ انجام ہوا ہے
میثم علی آغا
No comments:
Post a Comment