شمع بجھنے لگی خیالوں کی
زندگی ختم ہے اجالوں کی
من کی تنہائیاں سسکتی ہیں
دور شہنائیاں ہچکتی ہیں
چند الجھے ہوئے سوالوں کو
یاد کر دور جانے والوں کو
کوئی سوتے سے جاگ جائے گا
اپنی خاموش سی نگاہوں سے
ڈھونڈنے پر انہیں نہ پائے گا
بیٹھ کر جھیل کے کناروں پر
کوئی نغمہ وہ گنگنائے گا
اس کے نغموں کا درد سن کر پھر
یہ زمیں کانپ کانپ جائے گی
آسماں تھرتھرا سا جائے گا
کچھ ستارے فلک سے ٹوٹیں گے
دیکھ کر ٹوٹتا ستاروں کو
وہ مرے ہم نشیں یہ سوچیں گے
کہ کسی نے کسی کے دامن کو
سرخ پھولوں سے بھر دیا ہو گا
اس کو آباد کر دیا ہو گا
اور دنیا کی رسم راہوں نے
کانپتی چیختی نگاہوں نے
اس کو برباد کر دیا ہو گا
آہ برباد کر دیا ہو گا
عطیہ نور
No comments:
Post a Comment