Friday 29 April 2022

شمع بجھنے لگی خیالوں کی زندگی ختم ہے اجالوں کی

شمع بجھنے لگی خیالوں کی

زندگی ختم ہے اجالوں کی

من کی تنہائیاں سسکتی ہیں

دور شہنائیاں ہچکتی ہیں

چند الجھے ہوئے سوالوں کو

یاد کر دور جانے والوں کو

کوئی سوتے سے جاگ جائے گا

اپنی خاموش سی نگاہوں سے

ڈھونڈنے پر انہیں نہ پائے گا

بیٹھ کر جھیل کے کناروں پر

کوئی نغمہ وہ گنگنائے گا

اس کے نغموں کا درد سن کر پھر

یہ زمیں کانپ کانپ جائے گی

آسماں تھرتھرا سا جائے گا

کچھ ستارے فلک سے ٹوٹیں گے

دیکھ کر ٹوٹتا ستاروں کو

وہ مرے ہم نشیں یہ سوچیں گے

کہ کسی نے کسی کے دامن کو

سرخ پھولوں سے بھر دیا ہو گا

اس کو آباد کر دیا ہو گا

اور دنیا کی رسم راہوں نے

کانپتی چیختی نگاہوں نے

اس کو برباد کر دیا ہو گا

آہ برباد کر دیا ہو گا


عطیہ نور

No comments:

Post a Comment