کر گیا سوچ کے کیا میرے حوالے مجھ کو
میرے اندر کا درندہ ہی نہ کھا لے مجھ کو
صبحِ پُر نور کو آلودہ کیا ہے کس نے
شب گزیدہ نظر آتے ہیں اجالے مجھ کو
سنگ سے جس نے بنایا ہے مجھے آئینہ
اب یہ ڈر ہے وہ کہیں توڑ نہ ڈالے مجھ کو
عشق کی آتشِ سوزاں سے پگھل جائیں گے
روک کیا پائیں گے زندان کے تالے مجھ کو
اس تمدن کے اجالوں سے ہوا نا بینا
کوئی اس غارِ تنزل سے نکالے مجھ کو
مجھ کو پامال ہی کرنا تِری مرضی ہے اگر
اپنے دروازے کا تو سنگ بنا لے مجھ کو
ساز چلنا ہی مسلسل مِری مجبوری ہے
بیٹھنے دیتے نہیں پاؤں کے چھالے مجھ کو
ساز دہلوی
No comments:
Post a Comment