Saturday, 30 April 2022

کر گیا سوچ کے کیا میرے حوالے مجھ کو

 کر گیا سوچ کے کیا میرے حوالے مجھ کو

میرے اندر کا درندہ ہی نہ کھا لے مجھ کو

صبحِ پُر نور کو آلودہ کیا ہے کس نے

شب گزیدہ نظر آتے ہیں اجالے مجھ کو

سنگ سے جس نے بنایا ہے مجھے آئینہ

اب یہ ڈر ہے وہ کہیں توڑ نہ ڈالے مجھ کو

عشق کی آتشِ سوزاں سے  پگھل جائیں گے

روک کیا پائیں گے زندان کے تالے مجھ کو

اس تمدن کے اجالوں سے  ہوا نا بینا

کوئی اس غارِ تنزل سے نکالے مجھ کو

مجھ کو پامال ہی کرنا تِری مرضی ہے اگر

اپنے دروازے کا تو سنگ بنا لے مجھ کو

ساز چلنا ہی مسلسل مِری مجبوری ہے

بیٹھنے دیتے نہیں پاؤں کے چھالے مجھ کو


ساز دہلوی

No comments:

Post a Comment